چشم وا ہی نہ ہوئی جلوہ نما کیا ہوتا
اور ہوتا بھی تو دیکھے کے سوا کیا ہوتا
ریت کے باغ میں کیا باد بہاری کی طلب
کوئی سبزہ ہی نہیں تھا تو ہرا کیا ہوتا
اتنی سادہ بھی نہیں آگ اور انگور کی رمز
اجر دیتا نہ سزا تو بھی خدا کیا ہوتا
میری خواہش کے علاقے سے پرے کچھ بھی نہ تھا
اور خواہش کے علاقے میں نیا کیا ہوتا
جسم پر سرد ہواؤں کی فسوں کاری تھی
دھوپ تعویذ نہ کرتی تو مرا کیا ہوتا
اژدہے بننے لگے پیڑ پرندوں کے لیے
شہر پر خوف میں اب اس سے برا کیا ہوتا
دیکھنے میں بھی گیا تھا وہ تماشا لیکن
کوئی باقی نہ رہا رقص فنا کیا ہوتا
غزل
چشم وا ہی نہ ہوئی جلوہ نما کیا ہوتا
دانیال طریر