EN हिंदी
چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا | شیح شیری
chashm-e-saqi ka tasawwur bazm mein kaam aa gaya

غزل

چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا

عزیز لکھنوی

;

چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا
بھر گئی شیشوں میں مے گردش میں خود جام آ گیا

مضطرب دل اک تجلی میں فقط کام آ گیا
ابتدا ہی میں خیال عبرت انجام آ گیا

حسن خود آرا نہ یوں ہوتا حجاب اندر حجاب
شان تمکیں کو خیال منظر عام آ گیا

حسن نے اتنا تغافل میری ہستی سے کیا
رفتہ رفتہ زندگی کا مجھ پہ الزام آ گیا

انتظار اب شاق ہے اے ساقیٔ پیماں شکن
گھر گئے بادل صراحی آ گئی جام آ گیا

ہم تو سمجھے تھے سکوں پائیں گے بے ہوشی کے بعد
ہوش جب آیا تو پھر لب پر ترا نام آ گیا

خاک آخر ہو گیا سب ساز و سامان حیات
کیوں دل برباد حسرت اب تو آرام آ گیا

ہو گئی آسودگی جھگڑا چکا راحت ملی
ناتواں تھا دل نبرد عشق میں کام آ گیا

دل نے کی پیری میں پیدا غفلت عہد شباب
صبح کا بھولا جو منزل پر سر شام آ گیا

پردۂ دنیا میں اب بے سود ہیں یہ کوششیں
اے فریب آب و دانہ میں تہ دام آ گیا

رند مستغنی ہیں دنیا سے غرض ہم کو عزیزؔ
دولت جم مل گئی جب ہاتھ میں جام آ گیا