EN हिंदी
چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو | شیح شیری
chashm-e-nam le ke chalo qalb-e-tapan le ke chalo

غزل

چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو

نور بجنوری

;

چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو
ایک پتھر کے لئے شعلۂ جاں لے کے چلو

شاید اس کو بھی شب ہجر نظر آ جائے
اپنی پلکوں پہ چراغوں کا دھواں لے کے چلو

اس کو چاہا ہے تو پھر سنگ ملامت بھی چنو
پھول توڑے ہیں تو اب کوہ گراں لے کے چلو

بے حقیقت ہیں وہاں لعل و گہر شمس و قمر
دشمن جاں کے لئے تحفۂ جاں لے کے چلو

ایک بار اور اسے دیکھ لوں مرتے مرتے
میرا قاتل ہے کہاں مجھ کو وہاں لے کے چلو

اس کے ہونٹوں سے چرا لو کوئی رنگین سا خواب
اس کی زلفوں سے کوئی ابر رواں لے کے چلو

نورؔ در پیش ہے اب تم کو خزاؤں کا سفر
اس کے عارض سے بہاروں کا سماں لے کے چلو