چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو
ایک پتھر کے لئے شعلۂ جاں لے کے چلو
شاید اس کو بھی شب ہجر نظر آ جائے
اپنی پلکوں پہ چراغوں کا دھواں لے کے چلو
اس کو چاہا ہے تو پھر سنگ ملامت بھی چنو
پھول توڑے ہیں تو اب کوہ گراں لے کے چلو
بے حقیقت ہیں وہاں لعل و گہر شمس و قمر
دشمن جاں کے لئے تحفۂ جاں لے کے چلو
ایک بار اور اسے دیکھ لوں مرتے مرتے
میرا قاتل ہے کہاں مجھ کو وہاں لے کے چلو
اس کے ہونٹوں سے چرا لو کوئی رنگین سا خواب
اس کی زلفوں سے کوئی ابر رواں لے کے چلو
نورؔ در پیش ہے اب تم کو خزاؤں کا سفر
اس کے عارض سے بہاروں کا سماں لے کے چلو
غزل
چشم نم لے کے چلو قلب تپاں لے کے چلو
نور بجنوری