چشم نم کچھ بھی نہیں اور شعر تر کچھ بھی نہیں
اب یہاں خون جگر نقش ہنر کچھ بھی نہیں
ہے سبھی کچھ مہرباں نا مہرباں لفظوں کا پھیر
زندگی میں معتبر نا معتبر کچھ بھی نہیں
دل سے دل کو راہ کیسی ہے یہ حسن اتفاق
ورنہ دنیا میں محبت کا اثر کچھ بھی نہیں
جس ہنر کو لوگ سمجھیں گے کبھی لعل و گہر
آج کے بازار میں ایسا ہنر کچھ بھی نہیں
اہل ایماں کا عقیدہ ہے خدا کے باب میں
ہے وہی سب کچھ جو تا حد نظر کچھ بھی نہیں
اپنے اپنے فائدے کی جنگ جاری ہے یہاں
چشم بینا میں نظام خیر و شر کچھ بھی نہیں
اے سکوت لا مکاں میں بیٹھنے والے بتا
کیا جہان چار سو کا شور و شر کچھ بھی نہیں
ہر طرف سے ظلمتوں کا ایک سیل بے ایماں
اس جہاں میں حاصل فکر و نظر کچھ بھی نہیں

غزل
چشم نم کچھ بھی نہیں اور شعر تر کچھ بھی نہیں
نظیر صدیقی