چشم مشتاق نے یہ خواب عجب دیکھے ہیں
دل کے آئینے میں سو عکس ہیں سب تیرے ہیں
زندگی سے بھی نباہیں تجھے اپنا بھی کہیں
اس کشاکش میں شب و روز گزر جاتے ہیں
خانۂ دل میں تھا کیا کیا نہ امیدوں کا ہجوم
خانہ ویراں ہے تو راضی بہ رضا بیٹھے ہیں
دولت غم بھی خس و خاک زمانہ میں گئی
تم گئے ہو تو مہ و سال کہاں ٹھہرے ہیں
ابھی کچھ دیر نہ ڈوب اے مہہ تابان فراق
ابھی کچھ خواب بھی جی بھر کے کہاں دیکھے ہیں
غزل
چشم مشتاق نے یہ خواب عجب دیکھے ہیں
محمود ایاز