چشم حسیں میں ہے نہ رخ فتنہ گر میں ہے
دنیا کا ہر فریب فریب نظر میں ہے
اب کیا خبر کہ دل میں ہے کیا کیا جگر میں ہے
اب تو تری نظر کا تماشا نظر میں ہے
ایمان رکھ کے کیا کروں فرسودہ چیز ہے
مستی مجھے قبول کہ تیری نظر میں ہے
ناسور درد زخم تپش سوز و اضطراب
سامان سو طرح کا دل مختصر میں ہے
حاضر ہے اس کے واسطے جس کو ہو آرزو
ہاں اک لہو کی بوند مری چشم تر میں ہے
قسمت سے مل گئی ہے یہ بیدارئ حیات
اس عشق کے نثار کہ دنیا نظر میں ہے
مجھ کو نہ دن کو چین نہ شب کو سکوں نصیب
اک ربط دائمی مری شام و سحر میں ہے
حیرت سے دیکھیے نہ مرے سجدہ ہائے شوق
یہ آستاں کچھ اور ہی میری نظر میں ہے
باقی ہیں بعد توبہ بھی رندی کے ولولے
دل میں خیال بادہ ہے ساغر نظر میں ہے
اچھی ملی ہے مجھ کو یہ دیوانگئ شوق
دنیا کا ہر خیال دل بے خبر میں ہے
دو قطرہ ہائے خوں سر مژگاں ہیں منتظر
بہزادؔ دو جہاں کا تماشا نظر میں ہے
غزل
چشم حسیں میں ہے نہ رخ فتنہ گر میں ہے
بہزاد لکھنوی