چشم حیرت سارے منظر ایک جیسے ہو گئے
دیکھ لے صحرا سمندر ایک جیسے ہو گئے
جاگتی آنکھوں کو میری بارہا دھوکا ہوا
خواب اور تعبیر اکثر ایک جیسے ہو گئے
وقت نے ہر ایک چہرہ ایک جیسا کر دیا
آرزو کے سارے پیکر ایک جیسے ہو گئے
جب سے ہم کو ٹھوکریں کھانے کی عادت ہو گئی
راستوں کے سارے پتھر ایک جیسے ہو گئے
دیدۂ تر کی کہانی اب مکمل ہو گئی
درد سب اشکوں میں گھل کر ایک جیسے ہو گئے
شادؔ اتنی بڑھ گئی ہیں میرے دل کی وحشتیں
اب جنوں میں دشت اور گھر ایک جیسے ہو گئے
غزل
چشم حیرت سارے منظر ایک جیسے ہو گئے
خوشبیر سنگھ شادؔ