EN हिंदी
چشم بینا ہو تو قید حرم و طور نہیں | شیح شیری
chashm-e-bina ho to qaid-e-haram-o-tur nahin

غزل

چشم بینا ہو تو قید حرم و طور نہیں

درشن سنگھ

;

چشم بینا ہو تو قید حرم و طور نہیں
دیکھنے والی نگاہوں سے وہ مستور نہیں

کون سا گھر ہے جواں جلووں سے پر نور نہیں
اک مرے دل کی ہی دنیا ہے جو معمور نہیں

اپنی ہمت ہی سے پہنچوں گا سر منزل شوق
لوں سہارا میں کسی کا مجھے منظور نہیں

غم جاناں کو بھلا دوں نہ کروں دوست کو یاد
اتنا میں اے غم دوراں ابھی مجبور نہیں

یہ محبت کی ہے قیمت یہ محبت کا صلہ
کہ ہمارے ہی لیے عشق کا دستور نہیں

دونوں عالم کو ڈبو دے جو مے و مینا میں
چشم ساقی کے سوا اور کا مقدور نہیں

مسکرا دو تو مرا غنچہ دل کھل جائے
دل کبھی کھل نہ سکے ایسا بھی رنجور نہیں

تم نہیں پاس مگر ساتھ ہے یادوں کا ہجوم
میں اکیلا نہیں بیکس نہیں مہجور نہیں

آج کچھ شام سے تاریک ہے دل کی محفل
تم نہیں ہو تو وہ رونق نہیں وہ نور نہیں

مجھ میں ہمت ہے کہ میں راز کو افشا نہ کروں
یہ مرا ظرف ہے یہ شیوۂ منصور نہیں

کر سکے گا نہ جدا فاصلۂ وقت و مکاں
دور نظروں سے سہی دل سے مگر دور نہیں

میری تقدیر میں درشنؔ ہیں کسی کے جلوے
شکر صد شکر کہ دنیا مری بے نور نہیں