EN हिंदी
چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے | شیح شیری
chashm be-KHwab hui shahr ki virani se

غزل

چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے

سلیم کوثر

;

چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے
دل اترتا ہی نہیں تخت سلیمانی سے

پہلے تو رات ہی کاٹے سے نہیں کٹتی تھی
اور اب دن بھی گزرتا نہیں آسانی سے

ہم نے اک دوسرے کے عکس کو جب قتل کیا
آئینہ دیکھ رہا تھا ہمیں حیرانی سے

اب کے ہے لب آب ہی مر جائیں گے
پیاس ایسی ہے کہ بجھتی ہی نہیں پانی سے

آنکھ پہچانتی ہے لوٹنے والوں کو مگر
کون پوچھے گا مری بے سر و سامانی سے

یوں ہی دشمن نہیں در آیا مرے آنگن میں
دھوپ کو راہ ملی پیڑ کی عریانی سے

کوئی بھی چیز سلامت نہ رہے گھر میں سلیمؔ
فائدہ کیا ہے بھلا ایسی نگہبانی سے