چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے
دل اترتا ہی نہیں تخت سلیمانی سے
پہلے تو رات ہی کاٹے سے نہیں کٹتی تھی
اور اب دن بھی گزرتا نہیں آسانی سے
ہم نے اک دوسرے کے عکس کو جب قتل کیا
آئینہ دیکھ رہا تھا ہمیں حیرانی سے
اب کے ہے لب آب ہی مر جائیں گے
پیاس ایسی ہے کہ بجھتی ہی نہیں پانی سے
آنکھ پہچانتی ہے لوٹنے والوں کو مگر
کون پوچھے گا مری بے سر و سامانی سے
یوں ہی دشمن نہیں در آیا مرے آنگن میں
دھوپ کو راہ ملی پیڑ کی عریانی سے
کوئی بھی چیز سلامت نہ رہے گھر میں سلیمؔ
فائدہ کیا ہے بھلا ایسی نگہبانی سے
غزل
چشم بے خواب ہوئی شہر کی ویرانی سے
سلیم کوثر