چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جرأت عرض حال کیا ہوتی
نظر لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں قدر یا اللہ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں
شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
غزل
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
اکبر الہ آبادی