EN हिंदी
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں | شیح شیری
charKH se kuchh umid thi hi nahin

غزل

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں

اکبر الہ آبادی

;

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں

جرأت عرض حال کیا ہوتی
نظر لطف اس نے کی ہی نہیں

اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں

آپ کیا جانیں قدر یا اللہ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں

شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں

پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں