چرخ کی سعیٔ جفا کوشش ناکارہ ہے
گردش دہر یہاں جنبش گہوارہ ہے
چاند تاروں کے تلاطم سے یہ آتا ہے خیال
دل وحشی کوئی طوفاں زدہ سیارہ ہے
بہہ گئے دیدۂ نم ناک سے دریا لیکن
دل وہی ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے
دل ہوا سوز جہنم میں گرفتار مگر
روح اب بھی کسی فردوس میں آوارہ ہے
کیسی تقدیر کی گردش غم دل کو میں نے
گردش گنبد افلاک پہ دے مارا ہے
میرے شعروں سے تعرض نہ کر اے ناقد فن
میری بربادئ دل ہی مرا شہ پارا ہے
بہجت فکر پہ قادر ہوں میں جب تک اخترؔ
مجھے سرمایۂ اندوہ بہت پیارا ہے
غزل
چرخ کی سعیٔ جفا کوشش ناکارہ ہے
اختر انصاری