چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں
ہمارے شہر میں کالی ہوا نے پر نکالے ہیں
ہمیں شب کاٹنے کا فن وراثت میں ملا ہم نے
کبھی پتھر پکائے ہیں کبھی سپنے ابالے ہیں
دلوں میں خوف ہے اس کا نظر ہے اس کی رحمت پر
گناہ گاروں میں شامل ہیں مگر اللہ والے ہیں
لڑے تھے ساتھ مل کر ہم چراغوں کے لئے لیکن
ہمارے گھر اندھیرے ہیں تمہارے گھر اجالے ہیں
تمہاری یاد سے اچھا نہیں ہوتا کوئی عالم
میسر جن کو ہو جائے بڑی تقدیر والے ہیں
محبت آخری حل ہے ہمارے سب مسائل کا
مگر ہم نے تو نفرت کے سپنولے دل میں پالے ہیں
بھڑکتی آگ تو دو چار دن میں بجھ گئی تھی بدرؔ
ابھی تک شہر کے منظر نہ جانے کیوں دھوانلے ہیں
غزل
چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں
بدر واسطی