EN हिंदी
چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں | شیح شیری
charaghon mein andhera hai andhere mein ujale hain

غزل

چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں

بدر واسطی

;

چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں
ہمارے شہر میں کالی ہوا نے پر نکالے ہیں

ہمیں شب کاٹنے کا فن وراثت میں ملا ہم نے
کبھی پتھر پکائے ہیں کبھی سپنے ابالے ہیں

دلوں میں خوف ہے اس کا نظر ہے اس کی رحمت پر
گناہ گاروں میں شامل ہیں مگر اللہ والے ہیں

لڑے تھے ساتھ مل کر ہم چراغوں کے لئے لیکن
ہمارے گھر اندھیرے ہیں تمہارے گھر اجالے ہیں

تمہاری یاد سے اچھا نہیں ہوتا کوئی عالم
میسر جن کو ہو جائے بڑی تقدیر والے ہیں

محبت آخری حل ہے ہمارے سب مسائل کا
مگر ہم نے تو نفرت کے سپنولے دل میں پالے ہیں

بھڑکتی آگ تو دو چار دن میں بجھ گئی تھی بدرؔ
ابھی تک شہر کے منظر نہ جانے کیوں دھوانلے ہیں