چراغوں کو اچھالا جا رہا ہے
ہوا پر رعب ڈالا جا رہا ہے
نہ ہار اپنی نہ اپنی جیت ہوگی
مگر سکہ اچھالا جا رہا ہے
وہ دیکھو مے کدے کے راستے میں
کوئی اللہ والا جا رہا ہے
تھے پہلے ہی کئی سانپ آستیں میں
اب اک بچھو بھی پالا جا رہا ہے
مرے جھوٹے گلاسوں کی چھکا کر
بہکتوں کو سنبھالا جا رہا ہے
ہمی بنیاد کا پتھر ہیں لیکن
ہمیں گھر سے نکالا جا رہا ہے
جنازے پر مرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے
غزل
چراغوں کو اچھالا جا رہا ہے
راحتؔ اندوری