EN हिंदी
چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی | شیح شیری
charaghon ke bujhane ko hawa be-iKHtiyar aai

غزل

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی

جاذب قریشی

;

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
گلابوں کی مہک بکھری تو آواز شرار آئی

بگولوں نے سفر میں آندھیوں کا آسماں دیکھا
مگر اک فاختہ اپنے شجر تک بے غبار آئی

جسے تو نے اجالا جان کر چہرے پہ لکھا تھا
وہی شہرت تری رسوائیوں کے ہمکنار آئی

اندھیروں میں مجھے خود اک ستارہ ڈھونڈنے آیا
کہ شہر بے ہنر سے اک صدائے اعتبار آئی

مری آنکھوں میں جتنے رنگ تھے سب جل گئے جاذبؔ
مگر وہ مجھ سے ملنے جب بھی آئی بے قرار آئی