چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
گلابوں کی مہک بکھری تو آواز شرار آئی
بگولوں نے سفر میں آندھیوں کا آسماں دیکھا
مگر اک فاختہ اپنے شجر تک بے غبار آئی
جسے تو نے اجالا جان کر چہرے پہ لکھا تھا
وہی شہرت تری رسوائیوں کے ہمکنار آئی
اندھیروں میں مجھے خود اک ستارہ ڈھونڈنے آیا
کہ شہر بے ہنر سے اک صدائے اعتبار آئی
مری آنکھوں میں جتنے رنگ تھے سب جل گئے جاذبؔ
مگر وہ مجھ سے ملنے جب بھی آئی بے قرار آئی

غزل
چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
جاذب قریشی