چراغ شام سے آخر جلائیں کس کے لئے
کوئی نہ آئے گا آنکھیں بچھائیں کس کے لئے
کھنچا کھنچا نظر آتا ہے ہم سے ہر آنچل
ستارے توڑ کے لائیں تو لائیں کس کے لئے
نہیں ہے کوئی ہمیں زندگی کا شوق مگر
ہم اپنی جان سے جائیں تو جائیں کس کے لئے
ستم اٹھانے کا مقصد بھی کوئی ہوتا ہے
ہم آسمان سے شرطیں لگائیں کس کے لئے
خلاف ہم نہیں اختر شماریوں کے مگر
سوال یہ ہے کہ نیندیں گنوائیں کس کے لئے
وفا اک آگ ہے بچوں کا کوئی کھیل نہیں
ہم اپنا مفت میں دامن جلائیں کس کے لئے
شراب ہم پہ ہمیشہ سے ہے حرام علیمؔ
پتہ نہیں یہ اٹھی ہیں گھٹائیں کس کے لئے
غزل
چراغ شام سے آخر جلائیں کس کے لئے
علیم عثمانی