چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے
اندھیری رات بھی کس کس سے زندگی مانگے
جلانے والے جلاتے ہیں نفرتوں کے چراغ
فضائے وقت محبت کی روشنی مانگے
وہ نا شناس حقیقت ہے اس زمانہ میں
وفا کو بھیک سمجھ کر گلی گلی مانگے
نشاط و رنج مقدر کی بات ہوتی ہے
کسی سے غم نہ کسی سے کوئی خوشی مانگے
ہر ایک شخص میں انداز کج ادائی ہے
مگر یہ دل ہے کہ رہ رہ کے دوستی مانگے
جہاں سروں کی حقیقت نہ ہو وہاں پہ گہرؔ
جو کوئی مانگے تو کیا تاج خسروی مانگے

غزل
چراغ سے کبھی تاروں سے روشنی مانگے
گہر خیرآبادی