چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا
جمالؔ پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا
غزل
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
جمال احسانی