چراغ ہاتھوں کے بجھ رہے ہیں ستارہ ہر رہگزر میں رکھ دے
اتار دے چاند اس کے در پر سیاہ دن میرے گھر میں رکھ دے
کہیں کہیں کوئی ربط مخفی عبارت منتشر میں رکھ دے
گریز پر ہیں نشان سارے طرف بھی کوئی سفر میں رکھ دے
طلب طلب آئنہ صفت ہے خراب و خستہ ہیں عکس سارے
یہ نیکیاں بھی ہیں سر برہنہ لطافت خیر شر میں رکھ دے
نشاط آور ہے یہ اداسی کا ایک اڑتا ہوا سا لمحہ
مبادا طاق رجا ہو ویراں شرارہ اک چشم تر میں رکھ دے
یہ صرف و حاصل گزیدہ دنیا نہ دن ہی میرے نہ میری راتیں
کہاں تلک دیکھتا ہی جاؤں سماعتیں کچھ نظر میں رکھ دے
مرے خدا میرے جسم و جاں کے خدا مرے ہاتھ جھڑ نہ جائیں
دعا تہ سنگ لب گڑی ہے اثر ذرا سا اثر میں رکھ دے
بدن ہے یا قلعۂ ہوا ہے کہیں سے آؤں کہیں سے جاؤں
ہزاروں رخنے پڑے ہوے ہیں اٹھا کے دیوار در میں رکھ دے

غزل
چراغ ہاتھوں کے بجھ رہے ہیں ستارہ ہر رہگزر میں رکھ دے
عتیق اللہ