چراغ زیست کے دونوں سرے جلاؤ مت
اگر جلاؤ تو لو اس قدر بڑھاؤ مت
اس آرزو میں کہ زندہ اٹھا لیے جاؤ
خود اپنے دوش پہ اپنی صلیب اٹھاؤ مت
سلگ رہا ہے جو دل وہ بھڑک بھی سکتا ہے
قریب آؤ پر اتنے قریب آؤ مت
جو زخم کھائے ہیں ان کو سدا عزیز رکھو
جو تم کو بھول گیا ہو اسے بھلاؤ مت
جہاں میں کوئی تو ہو اعتبار کے قابل
وفائے دوست کو اب اور آزماؤ مت
اسی طرح سے ملی ہے ہر اک کو داد ہنر
جو سنگ آئے اسے چوم لو گنواؤ مت

غزل
چراغ زیست کے دونوں سرے جلاؤ مت
شاہد عشقی