چراغ قرب کی لو سے پگھل گیا وہ بھی
عذاب ہجر سے میں کیا، نکل گیا وہ بھی
ردائے ابر جمال حجاب کیا سرکی
کہ انگ انگ ستاروں میں ڈھل گیا وہ بھی
دیار خواب میں اک شخص ہم قدم تھا مگر
پڑا جو وقت تو رستہ بدل گیا وہ بھی
یہ اس کی یاد کا اعجاز تھا کہ اب کے برس
جو وقت ہم پہ کڑا تھا سو ٹل گیا وہ بھی
عجب طلسم نمو تھا وفا کی مٹی میں
ہوائے ہجر چلی، پھول پھل گیا وہ بھی
غزل
چراغ قرب کی لو سے پگھل گیا وہ بھی
ایوب خاور