چراغ کشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے
وہ دست غیب جو تبدیل کر رہا ہے مجھے
یہ میرے مٹتے ہوئے لفظ جو دمک اٹھے ہیں
ضرور وہ کہیں ترتیل کر رہا ہے مجھے
میں جاگتے میں کہیں بن رہا ہوں از سر نو
وہ اپنے خواب میں تشکیل کر رہا ہے مجھے
حریم ناز اور اک عمر بعد میں لیکن
یہ اختصار جو تفصیل کر رہا ہے مجھے
بدن پہ تازہ نشاں بن رہے ہیں جیسے کوئی
مرے غیاب میں تحویل کر رہا ہے مجھے
بدل رہے ہیں مرے خد و خال ترکؔ ابھی
مسلسل آئینہ تاویل کر رہا ہے مجھے
غزل
چراغ کشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ