EN हिंदी
چراغ درد کبھی یوں بجھے بجھے تو نہ تھے | شیح شیری
charagh-e-dard kabhi yun bujhe bujhe to na the

غزل

چراغ درد کبھی یوں بجھے بجھے تو نہ تھے

میر نقی علی خاں ثاقب

;

چراغ درد کبھی یوں بجھے بجھے تو نہ تھے
ہم اپنے آپ سے اتنے کھنچے کھنچے تو نہ تھے

فسون چشمۂ سیل رواں کی عمر دراز
ان آنسوؤں میں سمندر رکے رکے تو نہ تھے

شب فراق ان آنکھوں میں کٹ گئی ہوگی
ملے وہ کل بھی تھے لیکن تھکے تھکے تو نہ تھے

وہ سانس لیتی ہوئی تشنگی وہ نہر فرات
لبوں پہ پیاس کے دریا تھمے تھمے تو نہ تھے

وہ آنکھ اب بھی سمجھتی ہے اجنبی ہم کو
مگر ہم اہل نظر یوں نئے نئے تو نہ تھے