چراغ درد کبھی یوں بجھے بجھے تو نہ تھے
ہم اپنے آپ سے اتنے کھنچے کھنچے تو نہ تھے
فسون چشمۂ سیل رواں کی عمر دراز
ان آنسوؤں میں سمندر رکے رکے تو نہ تھے
شب فراق ان آنکھوں میں کٹ گئی ہوگی
ملے وہ کل بھی تھے لیکن تھکے تھکے تو نہ تھے
وہ سانس لیتی ہوئی تشنگی وہ نہر فرات
لبوں پہ پیاس کے دریا تھمے تھمے تو نہ تھے
وہ آنکھ اب بھی سمجھتی ہے اجنبی ہم کو
مگر ہم اہل نظر یوں نئے نئے تو نہ تھے

غزل
چراغ درد کبھی یوں بجھے بجھے تو نہ تھے
میر نقی علی خاں ثاقب