چراغ بجھنے لگے اور چھائی تاریکی
چکا رہا تھا میں قیمت ہوا سے یاری کی
تو سوچ بھی نہیں سکتا جس اہتمام کے ساتھ
کٹے شجر پہ پرندوں نے آہ و زاری کی
وہ جس کا عشق مرا جزو روح بن گیا تھا
اسی نے مجھ سے محبت بھی اختیاری کی
تمہارا وجد میں آنا فقط دکھاوا تھا
وہ کیفیت ہی نہیں تھی جو خود پہ طاری کی
تمہارے شہر کی حرمت کا پاس رکھتے ہوئے
عدو کوئی نہ بنایا سبھی سے یاری کی
جہاں خدا کی اذاں ہو رہی ہو گیت کی نذر
سنے گا کون وہاں پر صدا بھکاری کی

غزل
چراغ بجھنے لگے اور چھائی تاریکی
راکب مختار