EN हिंदी
چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا | شیح شیری
chand sansen hain mera raKHt-e-safar hi kitna

غزل

چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا

فضا ابن فیضی

;

چند سانسیں ہیں مرا رخت سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا

چلو اچھا ہی ہوا مفت لٹا دی یہ جنس
ہم کو ملتا صلۂ‌ حسن نظر ہی کتنا

کیا پگھلتا جو رگ و پے میں تھا یخ بستہ لہو
وقت کے جام میں تھا شعلۂ تر ہی کتنا

کس خطا پر یہ اٹھانا پڑی راتوں کی صلیب
ہم نے دیکھا تھا ابھی خواب سحر ہی کتنا

ہم بھی کچھ دیر کو چمکے تھے کہ بس راکھ ہوئے
سچ تو یہ ہے کہ رم و رقص شرر ہی کتنا

طرز احساس میں ندرت تھی ادھر ہی کتنی
فکر و جذبے میں توازن ہے ادھر ہی کتنا

دے دیئے خسرو و شیریں نے اسے موڑ کئی
ورنہ یوں فاصلۂ تیشہ و سر ہی کتنا

تیرا عرفان تو کیا خود کو نہ پہچان سکا
تھا مرا دائرہ علم و خبر ہی کتنا

یک قدم بیش نہیں شب کی مسافت لیکن
ایک ٹوٹے ہوئے تارے کا سفر ہی کتنا

اے فضاؔ دامن الفاظ ہے اب بھی خالی
تھا یہاں شاخ معانی پہ ثمر ہی کتنا