چند حرفوں نے بہت شور مچا رکھا ہے
یعنی کاغذ پہ کوئی حشر اٹھا رکھا ہے
مجھ کو تو اپنے سوا کچھ نظر آتا ہی نہیں
میں نے دیواروں کو آئینہ بنا رکھا ہے
آپ کے پاؤں تلے سے بھی کھسکتی ہے زمیں
آپ نے کیوں یہ فلک سر پہ اٹھا رکھا ہے
مصحف ذات کی تفسیر ہے یہ گہری چپ
چپ ہی معنی ہے میاں حرف میں کیا رکھا ہے
مجھ پہ تو بھاری نہیں کوئی شب ہجر مجھے
زخموں نے سرو چراغان بنا رکھا ہے
میرا ہر کام قیامت ہی اٹھا دیتا ہے
تو نے ہر کام قیامت پہ اٹھا رکھا ہے
گلشن دل ابھی شاداب ہے پژمردہ نہیں
موسم غم نے اسے کتنا ہرا رکھا ہے

غزل
چند حرفوں نے بہت شور مچا رکھا ہے
رفیق راز