چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
سنا نہیں ہمیں اجڑے چمن کے افسانے
یہ رنگ ہو تو سنک جائیں کیوں نہ دیوانے
چھلک رہے ہیں صراحی کے ساتھ پیمانے
بلا رہا ہے حرم، ٹوکتے ہیں بت خانے
کھسک بھی جائے گی بوتل تو پکڑے جائیں گے رند
جناب شیخ لگے آپ کیوں قسم کھانے
خزاں میں اہل نشیمن کا حال تو دیکھا
قفس نصیب پہ کیا گزری ہے خدا جانے
ہجوم حشر میں اپنے گناہ گاروں کو
ترے سوا کوئی ایسا نہیں جو پہچانے
نقاب رخ سے نہ سرکی تھی کل تلک جن کی
سبھا میں آج وہ آئے ہیں ناچنے گانے
کسی کی مست خرامی سے شیخ نالاں ہیں
قدم قدم پہ بنے جا رہے ہیں مے خانے
یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
غزل
چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
بسملؔ عظیم آبادی