EN हिंदी
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں | شیح شیری
chaman ko aag lagane ki baat karta hun

غزل

چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں

شاد عارفی

;

چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں

سحر کو شمع جلانے کی بات کرتا ہوں
یہ غافلوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں

روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے
چمن سے لطف اٹھانے کی بات کرتا ہوں

وہ باغبان جو پودوں سے بیر رکھتا ہے
یہ آپ ہی کے زمانے کی بات کرتا ہوں

شراب سرخ کی موجوں سے مدعا ہوگا
اگر میں خون بہانے کی بات کرتا ہوں

وہ صرف اپنے لئے جام کر رہے ہیں طلب
میں ہر کسی کو پلانے کی بات کرتا ہوں

یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے
کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

اس انجمن سے اٹھا ہوں کھری کھری کہہ کر
پھر انجمن میں نہ آنے کی بات کرتا ہوں

دبی زباں سے گزارش ہے ناگوار اگر
تو کیا سوال اٹھانے کی بات کرتا ہوں

نقاب روئے زمانہ نہ اٹھ سکے گی کہ میں
گلوں سے اوس اٹھانے کی بات کرتا ہوں

گھسے ہوؤں کو نئی فکر دے رہا ہوں شادؔ
منجھے ہوؤں کو سکھانے کی بات کرتا ہوں