چمن اپنے رنگ میں مست ہے کوئی غم گسار دگر نہیں
کہ ہے شبنم اشک فشاں مگر گل تر کو کوئی خبر نہیں
غم زندگی کا علاج تو کبھی موت سے بھی نہ ہو سکا
یہ وہ سخت قید حیات ہے کسی طرح جس سے مفر نہیں
مرے پاس جو بھی تھا لٹ گیا نہ وہ میں رہا نہ وہ دل رہا
کسی اور شے کا تو ذکر کیا کہ اب آہ میں بھی اثر نہیں
یہ تصورات کی وسعتیں یہ تخیلات کی رفعتیں
وہاں جلوے دیکھ رہا ہوں میں جہاں اختیار نظر نہیں
ترے حسن کا یہ کمال ہے کہ خود آپ اپنی مثال ہے
وہ جمال ہی تو جمال ہے جو کسی کا عکس نظر نہیں
جو ہیں بے عمل وہ ہیں با عمل جو ہیں بے ہنر وہ ہیں با ہنر
عجب انقلاب زمانہ ہے کہیں قدر اہل ہنر نہیں
مجھے اے فگارؔ نہ مل سکا کوئی لمحہ صبح نشاط کا
مری زندگی ہے وہ شام غم کہ جو روشناس سحر نہیں
غزل
چمن اپنے رنگ میں مست ہے کوئی غم گسار دگر نہیں
فگار اناوی