چمک ستاروں کی نظروں پہ بار گزری ہے
نہ پوچھ کیسے شب انتظار گزری ہے
جو آنسوؤں کی ندی خشک تھی کئی دن سے
وہ ساتھ اپنے لیے آبشار گزری ہے
میں اک دھواں تھا کہ اٹھتا گیا ہر اک دل سے
جدھر سے وہ نگۂ برق بار گزری ہے
وہاں سے ساتھ مرا ساتھیوں نے چھوڑ دیا
جہاں سے راہ گزر خار زار گزری ہے
خدا کا شکر ہے فاضلؔ کہ زندگی اپنی
غموں کے ساتھ بہت خوش گوار گزری ہے

غزل
چمک ستاروں کی نظروں پہ بار گزری ہے
فاضل انصاری