چمک چمک کے ستارو مجھے فریب نہ دو
تم اپنی رات گزارو مجھے فریب نہ دو
طلسم ٹوٹ گیا ہے تمہاری الفت کا
مری ہوس کو پکارو مجھے فریب نہ دو
میں جانتا ہوں تمہاری حقیقت ہستی
خزاں نصیب بہارو مجھے فریب نہ دو
لگے ہوئے ہیں یہاں پھول پھول سے کانٹے
مرے چمن کے نظارو مجھے فریب نہ دو
تڑپ تڑپ نہ اٹھو آج میرے ارمانو
بھڑک بھڑک کے شرارو مجھے فریب نہ دو
امید وعدۂ فردا نہ مجھ کو دلواؤ
میں غم نصیب ہوں یارو مجھے فریب نہ دو
غزل
چمک چمک کے ستارو مجھے فریب نہ دو
شہزاد احمد