EN हिंदी
چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے | شیح شیری
chalte hue mujh mein kahin Thahra hua tu hai

غزل

چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے

ابھیشیک شکلا

;

چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے
رستہ نہیں منزل نہیں اچھا ہوا تو ہے

تعبیر تک آتے ہی تجھے چھونا پڑے گا
لگتا ہے کہ ہر خواب میں دیکھا ہوا تو ہے

مجھ جسم کی مٹی پہ ترے نقش کف پا
اور میں بھی بڑا خوش کہ ارے کیا ہوا تو ہے

میں یوں ہی نہیں اپنی حفاظت میں لگا ہوں
مجھ میں کہیں لگتا ہے کہ رکھا ہوا تو ہے

وہ نور ہو آنسو ہو کہ خوابوں کی دھنک ہو
جو کچھ بھی ان آنکھوں میں اکٹھا ہوا تو ہے

اس گھر میں نہ ہو کر بھی فقط تو ہی رہے گا
دیوار و در جاں میں سمایا ہوا تو ہے