چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے
رستہ نہیں منزل نہیں اچھا ہوا تو ہے
تعبیر تک آتے ہی تجھے چھونا پڑے گا
لگتا ہے کہ ہر خواب میں دیکھا ہوا تو ہے
مجھ جسم کی مٹی پہ ترے نقش کف پا
اور میں بھی بڑا خوش کہ ارے کیا ہوا تو ہے
میں یوں ہی نہیں اپنی حفاظت میں لگا ہوں
مجھ میں کہیں لگتا ہے کہ رکھا ہوا تو ہے
وہ نور ہو آنسو ہو کہ خوابوں کی دھنک ہو
جو کچھ بھی ان آنکھوں میں اکٹھا ہوا تو ہے
اس گھر میں نہ ہو کر بھی فقط تو ہی رہے گا
دیوار و در جاں میں سمایا ہوا تو ہے
غزل
چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے
ابھیشیک شکلا