چلتے چلتے سال کتنے ہو گئے
پیڑ بھی رستے کے بوڑھے ہو گئے
انگلیاں مضبوط ہاتھوں سے چھٹیں
بھیڑ میں بچے اکیلے ہو گئے
حادثہ کل آئنہ پر کیا ہوا
ریزہ ریزہ عکس میرے ہو گئے
ڈھونڈیئے تو دھوپ میں ملتے نہیں
مجرموں کی طرح سائے ہو گئے
میری خاموشی پہ تھے جو طعنہ زن
شور میں اپنے ہی بہرے ہو گئے
چاند کو میں چھو نہیں پایا مگر
خواب سب میرے سنہرے ہو گئے
میری گم نامی سے اظہرؔ جب ملے
شہرتوں کے ہاتھ میلے ہو گئے
غزل
چلتے چلتے سال کتنے ہو گئے
اظہر عنایتی