EN हिंदी
چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں | شیح شیری
chalo us bewafa ko main bhula kar dekh leta hun

غزل

چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں

ارشاد حسین کاظمی

;

چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں
یہ شعلے خشک پتوں میں چھپا کر دیکھ لیتا ہوں

کسی صورت گزشتہ ساعتوں کے نقش مٹ جائیں
میں دیواروں سے تصویریں ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں

جو اتنی پاس ہیں وہ صورتیں دھندلائیں گی کیسے
خود اپنی سانس شیشے پر لگا کر دیکھ لیتا ہوں

بہت دل کو ستاتا ہے اگر بے خانماں ہونا
تو کچھ لمحے ہوا میں گھر بنا کر دیکھ لیتا ہوں

یہ ممکن ہے اسے بھی اس سے ہو کچھ دور کی نسبت
میں آنے والا ہر پتھر اٹھا کر دیکھ لیتا ہوں

توقع ہے کہ شاید وہ یوں ہی پہچان لے مجھ کو
اسے اس کے پرانے خط دکھا کر دیکھ لیتا ہوں

مرے غم کی خبر ارشادؔ دنیا کو ہوئی کیسے
بھرے تالاب میں کنکر گرا کر دیکھ لیتا ہوں