چلو کہ خود ہی کریں رو نمائیاں اپنی
سروں پہ لے کے چلیں کج کلاہیاں اپنی
سبھی کو پار اترنے کی جستجو لیکن
نہ بادباں نہ سمندر نہ کشتیاں اپنی
وہ کہہ گیا ہے کہ اک دن ضرور آؤں گا
ذرا قریب سے دیکھوں گا دوریاں اپنی
مرے پڑوس میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں
جو مجھ میں ڈھونڈ رہے ہیں برائیاں اپنی
مجھے خبر ہے وہ میری تلاش میں ہوگا
میں چھوڑ آیا ہوں اک بات درمیاں اپنی
میں بوند بوند کی خیرات کب تلک مانگوں
سمیٹ لاؤں سمندر سے سیپیاں اپنی
مرے کہے ہوئے لفظوں کی قدر و قیمت تھی
میں اپنے کان میں کہنے لگا اذاں اپنی
کرے گا سر وہی اس دشت بے کراں کو امیرؔ
جلا کے آئے جو ساحل پہ کشتیاں اپنی
غزل
چلو کہ خود ہی کریں رو نمائیاں اپنی
امیر قزلباش