EN हिंदी
چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو | شیح شیری
chalo hum hi pahal kar den ki humse bad-guman kyun ho

غزل

چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو

وسیم بریلوی

;

چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو
کوئی رشتہ ذرا سی ضد کی خاطر رائیگاں کیوں ہو

میں زندہ ہوں تو اس زندہ ضمیری کی بدولت ہی
جو بولے تیرے لہجے میں بھلا میری زباں کیوں ہو

سوال آخر یہ اک دن دیکھنا ہم ہی اٹھائیں گے
نہ سمجھے جو زمیں کے غم وہ اپنا آسماں کیوں ہو

ہماری گفتگو کی اور بھی سمتیں بہت سی ہیں
کسی کا دل دکھانے ہی کو پھر اپنی زباں کیوں ہو

بکھر کر رہ گیا ہمسائیگی کا خواب ہی ورنہ
دیئے اس گھر میں روشن ہوں تو اس گھر میں دھواں کیوں ہو

محبت آسماں کو جب زمیں کرنے کی ضد ٹھہری
تو پھر بزدل اصولوں کی شرافت درمیاں کیوں ہو

امیدیں ساری دنیا سے وسیمؔ اور خود میں ایسے غم
کسی پہ کچھ نہ ظاہر ہو تو کوئی مہرباں کیوں ہو