چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو
کوئی رشتہ ذرا سی ضد کی خاطر رائیگاں کیوں ہو
میں زندہ ہوں تو اس زندہ ضمیری کی بدولت ہی
جو بولے تیرے لہجے میں بھلا میری زباں کیوں ہو
سوال آخر یہ اک دن دیکھنا ہم ہی اٹھائیں گے
نہ سمجھے جو زمیں کے غم وہ اپنا آسماں کیوں ہو
ہماری گفتگو کی اور بھی سمتیں بہت سی ہیں
کسی کا دل دکھانے ہی کو پھر اپنی زباں کیوں ہو
بکھر کر رہ گیا ہمسائیگی کا خواب ہی ورنہ
دیئے اس گھر میں روشن ہوں تو اس گھر میں دھواں کیوں ہو
محبت آسماں کو جب زمیں کرنے کی ضد ٹھہری
تو پھر بزدل اصولوں کی شرافت درمیاں کیوں ہو
امیدیں ساری دنیا سے وسیمؔ اور خود میں ایسے غم
کسی پہ کچھ نہ ظاہر ہو تو کوئی مہرباں کیوں ہو
غزل
چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بد گماں کیوں ہو
وسیم بریلوی