چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے
مگر ہم آئنے سے کیا کہیں گے
چلیں گے روشنی ہوگی جہاں تک
پھر اس کے بعد تجھ سے آ ملیں گے
یہاں کچھ بستیاں تھیں اب سے پہلے
ملا کوئی تو یہ بھی پوچھ لیں گے
یہ سایہ کب تلک سایہ رہے گا
کہاں تک پیڑ سورج سے لڑیں گے
چراغ اس تیرگی میں کب جلے گا
یہ شہر آباد ہیں پر کب بسیں گے
جو حسن کشمکش ہے در تہہ آب
سبک ساران ساحل سے کہیں گے
جنہیں ساجدؔ غم آئندگاں ہے
سرود شام رفتہ کیا سنیں گے

غزل
چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے
ساجد امجد