چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں
بستی میں تو سب جل گئیں خوابوں کی ردائیں
بے چین ہے مضطر ہے پریشان ہے یہ روح
کب تک اسے احساس کی سولی پہ چڑھائیں
آنکھوں میں پڑھی جاتی ہے سائل کی ضرورت
چہرے سے سنی جاتی ہیں خاموش صدائیں
میں وقت کی رفتار کا رخ موڑ رہا ہوں
وہ لوگ جو ڈرتے ہیں مرے ساتھ نہ آئیں
منہ موڑ رہے ہیں جو ضیاؔ جہد و عمل سے
جا کر در تقدیر کی زنجیر ہلائیں
غزل
چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں
بختیار ضیا