EN हिंदी
چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں | شیح شیری
chaliye kahin sahra hi mein ab KHak uDaen

غزل

چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں

بختیار ضیا

;

چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں
بستی میں تو سب جل گئیں خوابوں کی ردائیں

بے چین ہے مضطر ہے پریشان ہے یہ روح
کب تک اسے احساس کی سولی پہ چڑھائیں

آنکھوں میں پڑھی جاتی ہے سائل کی ضرورت
چہرے سے سنی جاتی ہیں خاموش صدائیں

میں وقت کی رفتار کا رخ موڑ رہا ہوں
وہ لوگ جو ڈرتے ہیں مرے ساتھ نہ آئیں

منہ موڑ رہے ہیں جو ضیاؔ جہد‌ و عمل سے
جا کر در تقدیر کی زنجیر ہلائیں