EN हिंदी
چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لئے | شیح شیری
chale the ghar se to hum dard ki dawa ke liye

غزل

چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لئے

اعجاز احمد اعجاز

;

چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لئے
پڑے ہیں رستے میں تیرے مگر دعا کے لئے

مبادا شب کی سیاہی زمیں کو کھا جائے
نقاب رخ سے اٹھا دو ذرا خدا کے لئے

کوئی چراغ تو آندھی سے بچ کے نکلے گا
جلا دیئے ہیں بہت سے دیئے ہوا کے لئے

یہاں تو روز نئی آفتوں سے پالا ہے
حسینؔ کتنے اب آئیں گے کربلا کے لئے

وہ جس نے طور پہ موسیٰ کو بے قرار کیا
تڑپ رہی ہے نظر پھر اسی ادا کے لئے

زمیں کا سینہ تو شعلوں کی مثل جلتا رہا
ترس کے چل دیئے اعجازؔ اک گھٹا کے لئے