چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لئے
پڑے ہیں رستے میں تیرے مگر دعا کے لئے
مبادا شب کی سیاہی زمیں کو کھا جائے
نقاب رخ سے اٹھا دو ذرا خدا کے لئے
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ کے نکلے گا
جلا دیئے ہیں بہت سے دیئے ہوا کے لئے
یہاں تو روز نئی آفتوں سے پالا ہے
حسینؔ کتنے اب آئیں گے کربلا کے لئے
وہ جس نے طور پہ موسیٰ کو بے قرار کیا
تڑپ رہی ہے نظر پھر اسی ادا کے لئے
زمیں کا سینہ تو شعلوں کی مثل جلتا رہا
ترس کے چل دیئے اعجازؔ اک گھٹا کے لئے
غزل
چلے تھے گھر سے تو ہم درد کی دوا کے لئے
اعجاز احمد اعجاز