چلے بت خانے کو خدا حافظ
تم بھی زاہد کہو خدا حافظ
تیرے کوچے سے پیچ اٹھا کے چلے
گیسوۓ مشکبو خدا حافظ
دم عیسیٰ سے بھی شفا نہ ہوئی
لو بس اے ہمدمو خدا حافظ
ہے بہت زود رنج دل میرا
یار ہے تند خو خدا حافظ
اس صنم کو خدا کہوں نہ کہوں
ہے سخن گو مگو خدا حافظ
دل کو بت خانہ کر کے کعبے چلے
زاہدو زاہدو خدا حافظ
ہے فرنگن کے گورے ہاتھ میں دل
جان کا صاحبو خدا حافظ
دیر سے مثل نالۂ ناقوس
جاتے ہیں اے بتو خدا حافظ
بات بھی کی تو یہ کہا شب وصل
جائیں ہم تم کہو خدا حافظ
شہ خوباں کے غم میں جان چلی
اے وزیرؔ اب کہو خدا حافظ
غزل
چلے بت خانے کو خدا حافظ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی