چلا ہوں گھر سے میں احوال دل سنانے کو
وہ منتظر ہیں مرا ضبط آزمانے کو
رقیب ساتھ ہے اور زیر لب تبسم ہے
عجب طرح سے وہ آیا ہے دل دکھانے کو
اگرچہ بزم طرب میں ہوس کا غلبہ ہے
میں آ گیا ہوں محبت کے گیت گانے کو
میں جا رہا ہوں وہاں جبکہ از رہ تفریح
سجی ہے بزم مرا شوق آزمانے کو
روش روش میں ہے افسردگی کی افزائش
وہ پھر بھی نکلے ہیں تفریح گل منانے کو
جنون عشق مرا جبکہ اک حقیقت ہے
الگ کروں گا میں اس عشق سے فسانے کو
میں چاہتا تھا مرا عشق ایک راز رہے
وہ آ گیا تو خبر ہو گئی زمانے کو
وہ جن سے مجھ کو توقع تھی پاسبانی کی
وہ آ گئے ہیں مرا آشیاں جلانے کو
جناب شیخ کی یہ وہ رخی معاذ اللہ
ہوئی ہے شب تو چلے ہیں شراب خانے کو
رہ حیات میں بہروپیوں سے واقف ہوں
جو غم گسار بنے میرا دل دکھانے کو
جو بے خبر ہیں سراپا وہ پھر رہے ہیں آج
قدم قدم پہ نئی داستاں سنانے کو
جدھر نگاہ اٹھاؤ رواں ہے خون جگر
خبر نہیں کہ یہ کیا ہو گیا زمانے کو
غزل
چلا ہوں گھر سے میں احوال دل سنانے کو
زاہد چوہدری