چلا ہوس کے جہانوں کی سیر کرتا ہوا
میں خالی ہاتھ خزانوں کی سیر کرتا ہوا
پکارتا ہے کوئی ڈوبتا ہوا سایا
لرزتے آئینہ خانوں کی سیر کرتا ہوا
بہت اداس لگا آج زرد رو مہتاب
گلی کے بند مکانوں کی سیر کرتا ہوا
میں خود کو اپنی ہتھیلی پہ لے کے پھرتا رہا
خطر کے سرخ نشانوں کی سیر کرتا ہوا
کلام کیسا چکا چوند ہو گیا میں تو
قدیم لہجوں زبانوں کی سیر کرتا ہوا
زیادہ دور نہیں ہوں ترے زمانے سے
میں آ ملوں گا زمانوں کی سیر کرتا ہوا
غزل
چلا ہوس کے جہانوں کی سیر کرتا ہوا
انجم سلیمی