EN हिंदी
چلا چل مہلت آرام کیا ہے | شیح شیری
chala-chal mohlat-e-aram kya hai

غزل

چلا چل مہلت آرام کیا ہے

صبا اکبرآبادی

;

چلا چل مہلت آرام کیا ہے
مسافر اور تیرا کام کیا ہے

ہمارا واسطہ ہے ان کے ڈر سے
ہمیں سارے جہاں سے کام کیا ہے

تمہارا حسن تو ہے غیر فانی
ہمارے عشق کا انجام کیا ہے

خدا کا نام لینا چاہتا ہوں
مگر میرے خدا کا نام کیا ہے

سواد شام مے خانہ سلامت
بیاض جامۂ احرام کیا ہے

تم اپنے آئینے سے پوچھ لیتے
ہمارے عشق پر الزام کیا ہے

ہمیں خود راستہ چلنا نہ آیا
فراز و پست پر الزام کیا ہے

سنو اے آشیاں کے خشک تنکو
بہار باغ کا پیغام کیا ہے

خرد کے مسئلے حل کرنے والو
تمہیں میرے جنوں سے کام کیا ہے

خبر خود موج طوفاں کو نہیں ہے
سفینے کا مرے انجام کیا ہے

بہ راہ راست ان کو مانگتا ہوں
تکلف کا دعا میں کام کیا ہے

حد پرواز جب سمٹی تو سمجھے
قفس کیا آشیاں کیا دام کیا ہے

صباؔ ترک محبت کر رہے ہو
محبت سے ضروری کام کیا ہے