چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں
لوٹ کر نہیں دیکھا ہم نے اپنا گھر برسوں
جادۂ حوادث میں چل کے دیکھ لے کوئی
کیسے طے کیا ہم نے موت کا سفر برسوں
برگ و بار پر اس کے حق نہیں ہمارا ہی
اپنے خون سے سینچا ہم نے جو شجر برسوں
جو صدف سمندر کی تہہ میں چھان سکتے تھے
ڈھونڈتے رہے وہ بھی ریت میں گہر برسوں
دوستو ضرورت پر کام آ گیا اپنے
دشمنوں سے سیکھا تھا ہم نے جو ہنر برسوں
جب ملے رفیقوں سے زخم ہی ملے ہم کو
بے سبب رہا دل میں دشمنوں کا ڈر برسوں
وہ بھی کیا عجب دن تھے شوق رہ نوردی میں
ہم نے بھی زمانے کی سیر کی ظفرؔ برسوں
غزل
چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں
ظفر کلیم