EN हिंदी
چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں | شیح شیری
chal paDe to phir apni dhun mein be-KHabar barson

غزل

چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں

ظفر کلیم

;

چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں
لوٹ کر نہیں دیکھا ہم نے اپنا گھر برسوں

جادۂ حوادث میں چل کے دیکھ لے کوئی
کیسے طے کیا ہم نے موت کا سفر برسوں

برگ و بار پر اس کے حق نہیں ہمارا ہی
اپنے خون سے سینچا ہم نے جو شجر برسوں

جو صدف سمندر کی تہہ میں چھان سکتے تھے
ڈھونڈتے رہے وہ بھی ریت میں گہر برسوں

دوستو ضرورت پر کام آ گیا اپنے
دشمنوں سے سیکھا تھا ہم نے جو ہنر برسوں

جب ملے رفیقوں سے زخم ہی ملے ہم کو
بے سبب رہا دل میں دشمنوں کا ڈر برسوں

وہ بھی کیا عجب دن تھے شوق رہ نوردی میں
ہم نے بھی زمانے کی سیر کی ظفرؔ برسوں