EN हिंदी
چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ | شیح شیری
chal kar na zulf-e-yar ko tu ai saba bigaD

غزل

چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ

جلیلؔ مانک پوری

;

چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
اندھیر ہوگا اس سے اگر ہو گیا بگاڑ

عاشق کو ہر طرح ہے مصیبت کا سامنا
اچھا ترا ملاپ نہ اچھا ترا بگاڑ

میں کیوں کروں کسی کو مکین مکان دل
میں کیوں کہوں کسی سے کہ تو گھر مرا بگاڑ

موقوف ایک دو پہ نہیں یار کا عتاب
اس سے جدا بگاڑ ہے اس سے جدا بگاڑ

ہوتی تھی عاشقوں میں بڑے لطف سے بسر
بیٹھے بٹھائے آپ نے کیوں کر لیا بگاڑ

ایسے مریض عشق کا کس سے علاج ہو
پیدا کرے مزاج میں جس کے دوا بگاڑ

نازک مزاج یار کا برتاؤ کیا کہوں
دو دن رہا ملاپ تو برسوں رہا بگاڑ

اچھوں میں عیب بھی ہو تو داخل ہنر میں ہے
رکھتا ہے سو بناؤ تری زلف کا بگاڑ

اچھا ہوا جلیلؔ سے تم صاف ہو گئے
اغیار نے تو ڈال دیا تھا برا بگاڑ