چل دل اس کی گلی میں رو آویں
کچھ تو دل کا غبار دھو آویں
گو ابھی آئے ہیں یہ ہے جی میں
پھر بھی ٹک اس کے پاس ہو آویں
دل کو کھویا ہے کل جہاں جا کر
جی میں ہے آج جی بھی کھو آویں
پند گو میرا مغز کھانے کو
کاش آویں تو ایک دو آویں
ہم تو باتوں میں رام کر لیں انہیں
یہ بتاں اپنے پاس جو آویں
گو خفا ہی ہوا کرے پر ہم
اک ذرا اس کو دیکھ تو آویں
جب ہم آویں تو اپنے دل میں رکو
اور نہ آویں تو پھر کہو آویں
باز آئے ہم ایسے آنے سے
ہاں جو واقف نہ ہوویں سو آویں
کب تلک اس گلی میں روز حسنؔ
صبح کو جاویں شام کو آویں
غزل
چل دل اس کی گلی میں رو آویں
میر حسن