چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی
پانی تمہیں ہرگز نہ صباؔ دے گا یہ پانی
اک روز ڈبو دے گا مرے جسم کی کشتی
مجھ سے مجھے آزاد کرا دے گا یہ پانی
پہنچے گا سرابوں کا وہاں بھیس بدل کر
صحرا میں بھی ہر لمحہ صدا دے گا یہ پانی
برسے گا تو خوشبو یہاں مٹی سے اڑے گی
سینے میں مرے آگ لگا دے گا یہ پانی
پتھر سے کسی روز مٹا کر صباؔ تم کو
پانی پہ ہی اک نقش بنا دے گا یہ پانی

غزل
چکھو گے اگر پیاس بڑھا دے گا یہ پانی
صبا اکرام