EN हिंदी
چین کب آتا ہے گھر میں ترے دیوانے کو | شیح شیری
chain kab aata hai ghar mein tere diwane ko

غزل

چین کب آتا ہے گھر میں ترے دیوانے کو

سید محمد ظفر اشک سنبھلی

;

چین کب آتا ہے گھر میں ترے دیوانے کو
پھر لئے جاتی ہے وحشت مجھے ویرانے کو

تم مٹاتے ہو جو مجھ کو تو سمجھ لو یہ بھی
شمع روتی ہے بہت مار کے پروانے کو

ہے اگر عیش کسی کو تو بلا سے اپنی
ہم تو پیدا ہوئے ہیں رنج و الم کھانے کو

خود بھی سولی پہ چڑھا یار کو رسوا بھی کیا
کیا کہے اب کوئی منصور سے دیوانے کو

بو حقیقت کی نہ ہو تو گل مضموں کیا ہے
پھول کاغذ کا ہے اک دیکھنے دکھلانے کو

نام کو بھی نہ کسی آنکھ سے آنسو نکلا
شمع محفل میں جلاتی رہی پروانے کو

کوئی ہمدرد نہیں اپنا زمانے میں ظفرؔ
آزما دیکھا ہے ہر اپنے کو بیگانے کو