چین کب آتا ہے گھر میں ترے دیوانے کو
پھر لئے جاتی ہے وحشت مجھے ویرانے کو
تم مٹاتے ہو جو مجھ کو تو سمجھ لو یہ بھی
شمع روتی ہے بہت مار کے پروانے کو
ہے اگر عیش کسی کو تو بلا سے اپنی
ہم تو پیدا ہوئے ہیں رنج و الم کھانے کو
خود بھی سولی پہ چڑھا یار کو رسوا بھی کیا
کیا کہے اب کوئی منصور سے دیوانے کو
بو حقیقت کی نہ ہو تو گل مضموں کیا ہے
پھول کاغذ کا ہے اک دیکھنے دکھلانے کو
نام کو بھی نہ کسی آنکھ سے آنسو نکلا
شمع محفل میں جلاتی رہی پروانے کو
کوئی ہمدرد نہیں اپنا زمانے میں ظفرؔ
آزما دیکھا ہے ہر اپنے کو بیگانے کو

غزل
چین کب آتا ہے گھر میں ترے دیوانے کو
سید محمد ظفر اشک سنبھلی