چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر
میرے گھر اک پیڑ تھا اور ایک گھر تھا پیڑ پر
موسم گل تو نے سوچا ہے کہ اس کا کیا بنا
تیرے لمس مہرباں کا جو اثر تھا پیڑ پر
اب ہوا کے ہاتھ میں تو اک تماشا بن گیا
زرد سا پتا سہی میں معتبر تھا پیڑ پر
اس لیے میرا پرندوں سے لگاؤ ہے بہت
میں بھی تو کوئی زمانہ پیشتر تھا پیڑ پر
اس دفعہ تو فصل گل کے ساتھ آئیں آندھیاں
اڑ گیا سب جو مرے خوابوں کا زر تھا پیڑ پر
غزل
چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر
سجاد بلوچ