چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
پانو رکھتے ہی کنارے پہ بکھر جاؤ گے
وقت ہر موڑ پہ دیوار کھڑی کر دے گا
وقت کی قید سے گھبرا کے جدھر جاؤ گے
خانہ برباد سمجھ کر ہمیں ڈھلتی ہوئی رات
طنز سے پوچھتی ہے کون سے گھر جاؤ گے
سچ کہو شام کی آوارہ ہوا کے جھونکو
اس کی خوشبو کے تعاقب میں کدھر جاؤ گے
آگے بڑھ جائیں گے پھر دونوں ہی چپ چپ، یوں تو
میں پکاروں گا تمہیں، تم بھی ٹھہر جاؤ گے
ضبط احساس کے زنداں سے کہیں بھاگ چلو
اور کچھ دیر یہاں ٹھہرے تو مر جاؤ گے
نقش امروز سے آگے نہ نگاہیں دوڑاؤ
کل کی تصویر جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
میں بھی سایہ ہوں سیہ رات میں کھو جاؤں گا
تم بھی اک خواب ہو پل بھر میں بکھر جاؤ گے
راستے شہر کے سب بند ہوئے ہیں تم پر
گھر سے نکلو گے تو مخمورؔ کدھر جاؤ گے
غزل
چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
مخمور سعیدی