چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنے والا ہے
اب اس کہانی کا کردار مرنے والا ہے
یہ آگہی ہے کسی حادثے کے آمد کی
بدن کا سارا اثاثہ بکھرنے والا ہے
ذرا سی دیر میں زنجیر ٹوٹ جائے گی
جنون اپنی حدوں سے گزرنے والا ہے
سنا ہے شہر میں آیا ہے جادو گر کوئی
تمام شہر کو تصویر کرنے والا ہے
تمام شہر بنایا گیا ہے آئینہ
یہ آج کس کا سراپا سنورنے والا ہے
شکیلؔ ہم سے کسی کو شکایتیں ہیں بہت
چلو کوئی تو ہمیں پیار کرنے والا ہے
غزل
چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنے والا ہے
شکیل اعظمی